اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو گویا ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں طائروں کی صدائیں آتی تھیں کسی ندی کے پاس ایک بکری چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا پاس اک گائے کو کھڑا پایا فیلڈ بک کر اسے سلام کیا پھر سلیقے سے یوں کلام کیا کیوں بڑی بی,. مزاج کیسے ہیں گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی ہے مصیبت میں زندگی اپنی آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے, خدا نہ کرے دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے ہیں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں بدلے نیکی کے یہ برائی ہے میرے اللہ تری دہائی ہے.
تم کے بکری یہ ماجرا سارا بولی ایسا گلہ نہیں اچھا بات سچی ہے بے مزا لگتی میں کہوں گی مگر خدا لگتی یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا یہ ہری گھاس اور یہ سایہ ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں یہ کہاں بے زباں غریب کہاں یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں لطف سارے اسی کے دم سے ہیں ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا قدر آرام کی اگر سمجھو آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو گائے سن کر یہ بات شرمائی آدمی کے گلے سے پچھتائی دل میں پرکھا بھلا برا اس نے اور کچھ سوچ کر کہا اس نے یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی.

(علامہ محمد اقبال)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *