شیر کی کھال میں گدھا
شیر کی کھال میں گدھا کسی گاؤں میں ایک دھوبی رہتا تھا اس دھوبی کا ایک گدھا بھی تھا جس سے وہ اپنے روزمرہ کے کام لیا کرتا تھا دھوپ بھی اپنے گدھے کو پیار سے رکھتا تھا لیکن اسے خوراک دینے میں بہت کنجوسی کرتا تھا بےچارا گدھا اتنا کمزور ہو گیا کہ گھر لوٹتے وقت بیچ جنگل میں بوجھ کی وجہ سے لڑکھڑا کے گر پڑا دھوبی کو اپنے گدھے پر بہت ترس آیا اور سوچنے لگا کہ کاش میں اسے اچھی خوراک دے پاتا تو بھی ذرا آگے بڑھا تو اسے ایک مرا ہوا شیر ملا دوبئی کو اچانک خیال آیا اور اس نے شیر کی کھال کو گدھے پر لاد کر گھر لے آیا شیر کی کھال کو دھوبی نے اپنے گدھے کو پہنا دی اور اس کا بھیس بدل دیا اب دوبئی میں اپنے گدھے کو کھیتوں میں چھوڑ دیا تو نے شیر کو دیکھا تو کھو سے بھاگ گئے اور گدھا بے خوفی سے چڑھتا رہا صبح ہوئی دھوبی اس گدھے کو گھر لے آیا کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا گدھا اب موٹا ہو گیا تھا وہاں کسان فصلوں کے نقصان کو دیکھ کر پریشان تھے انہوں نے شیر کو دیکھا تو جو گوشت کھانے کی بجائے گھاس کھاتا تھا اسی اثنا میں ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالی کسان چونک گیا اچھا تو ہم بے وقوف بن رہے تھے یہ شعر کی کھال میں گدھا ہے تمام انسانوں نے مل کر گدھے کو پکڑ کر بہت مارا اور اس کا کام تمام کر دیا جو بھی روز کی طرح صبح اپنے گدھے کو لینے صبح آیا تو اپنے گدھے کو مرا ہوا دیکھتے رہ گیا اور سوچنے لگا کاش میں ایسا نہ کرتا تو آج میرا گدھا نہ مرتا اور وہ میرے پاس ہوتا تو بھی افسوس سے ہاتھ ملتا رہا اور چپ سادھے رہا اور کر بھی کیا سکتا تھا اگر وہ کسانوں سے کچھ کہتا تو کسان گدھے کی طرح اس کو بھی مارتے.نتیجہ سے عزت نہیں ملتی اور دھوکہ ذلت کا سبب بنتا ہے