ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ موسم گرما میں دوپہر کے وقت چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں ایک بڑھیا لاٹھی کے سہارے چلتی ہوئی ایک بزاز کی دکان پر بیٹھ گئی دوکاندار بڑھیا کو پانی پلایا اور گاہکوں کو کپڑا دکھانے میں مصروف ہوگیا بڑھیا بیٹھی رہی اور گاہکوں اور بزاز کی گفتگو سنتی رہی جب سب گاہک چلے گئے تو بزاز نے اپنے نو عمر ملازم سے کہا یہ لو برقعہ اسے گھر میں دے دینا اور کہنا کہ فلاں صندوق میں کپڑے کا ایک تھان رکھا ہے وہ نکال کر دے دیں ایک گاہک کو دینا ہے.. ملازم نے برقع لیا اور دکان سے نیچے اترا بڑھیا بھی اٹھ کر چل دی اب ملازم آگے آگے اور بڑھیا پیچھے پیچھے چل رہی تھی جوہی دکان سے ذرا دور ہوئی اس نے آواز دے کر ملازم کو ٹھہرایا اور باتوں باتوں میں بزاز کے گھر کا پتہ دریافت کرلیا اچانک بڑھیا کو کچھ یاد آیا ملا دم سے بولی میرے اچھے بیٹے میں تمہاری دکان پر اپنی نقدی کی پوٹلی بھول آئی ہو ذرا دوڑ کر جاؤں اور میری پوٹلی لے آؤ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور لے جائے یہ برقع مجھے دے دے اور جلدی آنا میں یہی کھڑی انتظار کرتی ہوں ملازم گڑیا کی باتوں میں آگیا اس نے برقع بڑھیا کو دے دیا اور خود دکان کی طرف چل دیا گڑیا نے موقع غنیمت سمجھا اور جلدی جلدی قدم اٹھاتی ہوئی بزاز کے گھر پہنچ گئی دروازہ کھٹکھٹایا اس کی بیوی نے دروازہ کھولا اور پوچھا بڑی بی کیا بات ہے بڑھیا نے کہا یہ لو برقع تمہارے خاوند نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جلدی سے فلاں صندوق میں سے ایک تھان نکال کر دے دوں گاہک دکان پر انتظار کر رہا ہے اس کی بیوی نے برقع لے لیا اور کہاں نہ جانے تو کون ہے میں تجھے تھان نہیں دوں گی بڑھیا نے نرمی سے کہا میں دکان سے آ رہی ہوں ملازم مصروف تھا اس لئے مجھے ہی آنا پڑا مگر اس کی بیوی سے آخر بڑھیا نے کہا تھان نہیں دیتی تو برقع ہی دے دو میں دکان پر دے دوں اس نے جواب دیا برقع میرے خاوند نے بھیجا ہے میں نے لے لیا ہے اب میں تجھے نہ برقع دے سکتی ہوں اور نہ تھان بڑھیا نے سوچا کے یہ تو فریب میں نہیں آنے والی ملازم پہنچ گیا تو پولیس کے حوالے ہونا پڑے گا چپکے سے بھاگیں اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اس روز سارے شہر میں اعلان ہوتا رہا کہ شہر میں ایک دغا باز عورت گھسی ہوئی ہے لوگ اس سے ہوشیار رہیں…. نتیجہ :عقلمندی بہترین حکمت عملی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *