بابر کی دلیری
ظہیر الدین بابر مغلیہ سلطنت کا بانی تھا بابر 1473 میں فرغانہ میں پیدا ہوا ظہیر الدین بابر کے والد کا نام عمر شیخ مرزا تھا جو فرغانہ کا حاکم تھا وہ ایک بہادر انسان تھا جس کا تعلق امیر تیمور کے خاندان سے تھا بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم کا شغر کے حاکم یونس خان کی بیٹی تھی بابر کی والدہ کا سلسلہ نسب مشہور منگول سردار چنگیز خان سے ملتا تھا اس طرح بابر کی رگوں میں وقت ایشیا کے دو مشہور حکمرانوں کا خون دوڑتا تھا بابر کو منگولوں کی طاقت اور ترکوں کی قیمت وراثت میں ملی تھی وہ بہت بہادر اور دلیر تھا بابر ترکیۃ زبان کا لفظ ہے جس کا معنی شیر ہے بابر نے دنیاوی علوم و فنون کے علاوہ شمشیر زنی تیر اندازی اور ایسے کئی کام جن میں انہیں مہارت حاصل ہوئی اور وہ خوب ترقی کرتے گئے 1494 میں بابر ابھی گیارہ سال کا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا بابر کو چھوٹی عمر میں ہی میں ریاست کی حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی اس کی بعد والی زندگی مسلسل کوشش ہمت اور جرات سے عبارت تھی بابر نے اپنے جدا مجدا امیر تیمور کی پایا تخت سمر قند کو فتح کرنے کے لئے کئی حملے کیے مگر ناکام رہا پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور بہادری کے ساتھ ڈٹا رہا آخر 1497 میں سمرقند کو فتح کر لیا بابر ابھی ثمرقند میں ہی تھا کہ اس کے چچا زاد بھائی نے فرغانہ پر قبضہ کرلیا بابر فرزانہ کی جانب بڑھا اور ابھی راستے میں ہی تھا کے اس کے چچا زاد نے سمرقند پر بھی قبضہ کر لیا مگر بابر نے بہت دلیری سے مقابلہ کیا اور دونوں علاقے دوبارہ حاصل کر لیے اس کے بعد کابل اور قندھار بھی فتح کرلئے بابر نے 1526 میں پانی پت کی لڑائی میں ابراہیم لودھی کے لشکر جرار کو شکست دی اور ہندوستان کا تاج و تخت حاصل کرلیا میواڑ کا حکمران رانا سانگا ایک لاک فوجی لے کار آگرہ کے کنواہا کے میدان میں بابر سے لڑنے کے لیے آیا تو بابر نے چند ہزار سپاہیوں کے ساتھ لاکھوں کے لشکر کو شکست فاش دے کر بہادری کی ایک تاریخ رقم کر دی اس کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے بہت سےراجا و کو شکست دے کر ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا آغاز کیا ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا قائم ہونا اور دراصل بابر کی دلیری اور مستقل مزاجی کا ہی مرہون منت تھا بابر کا انتقال 1530 میں ہوا سچ ہے کہ ذلیل انسان اپنے بہادری کے کارناموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے. نتیجہ دلیری کامیابی کی کنجی ہے