پیارے بچوں! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ افریقہ کے ایک جنگل میں بہت سے جانور اپس میں مل جل کر رہا کرتے تھے اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے گویا جنگل میں منگل تھا شیر بی بلا وجہ کسی جانور کو نہ مارتا تھا اگر بھوک لگی ہوتی تو گھاس کھا لیتا یا کسی کمزور جانور کو کھا لیتا۔جنگل کے جانور ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ایک دن نہ جانے کہاں سے ان کے جنگل میں ایک لومڑی اگئی۔بچوں اپ تو جانتے ہی ہیں” کہ لومڑی کتنی چالاک ہوتی ہے”۔جانوروں نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں ائی ہو؟تو وہ جھوٹ موٹ کے انسو بہانے لگی اور بولی میں جس جنگل میں رہتی تھی وہاں میری کوئی عزت نہیں کرتا تھا لہذا میں مجبور ہو کر یہاں ائی ہوں جانور اس کو اپنے بادشاہ شیر کے پاس لے گئے اور ساری بات بتا دی شیر نے کہا دیکھو بھائی تم سب جانتے ہو کہ لومڑی کتنی چالاک ہوتی ہے لہذا میں اس کو یہاں رکھنے کو تیار نہیں ہوں باقی تم ساروں کی مرضی ہے جانوروں کو لومڑی پر ترس اگیا اور اخر کار جانوروں کے کہنے پر شیر نے لومڑی کو جنگل میں رہنے کی اجازت دے دی۔لومڑی کچھ عرصے تو جنگل میں کافی خوش رہی اور کوئی چالاکی نہ دکھائی مگر ایک دن اس نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر جانوروں کے بیچ پھوٹ ڈلوانی شروع کر دی اور ایک ایک کر کے سبھی جانوروں کے پاس جانے لگی وہ سب سے پہلے ہاتھی کے پاس گئی اور کہا کہ بھائی تم تو سب سے زیادہ طاقتور ہو شیر تو تم سے بہت ہی کمزور ہے اسے جنگل کا بادشاہ نہیں ہونا چاہیے تھا اصل جنگل کا بادشاہ تو تم ہو یہ بات سن کر۔۔۔ہاتھی نے کہا کہ اب یہ بات جنگل کے سبھی جانوروں کو کون سمجھائے لومڑی نے کہا میں تمہیں اس جنگل کا بادشاہ مانتی ہوں۔ہاتھی یہ بات سن کر بہت خوش ہوا لومڑی نے اسے شیر سے جھگڑے کی طرف اکسایا۔دوسری طرف لومڑی جا کر شیر کو ہاتھی کی طرف سے بدگمان کرتی ہے کہ وہ خود کو تم سے زیادہ طاقتور سمجھتا ہے اور خود کو جنگل کا بادشاہ کہتا ہے شیر کو یہ بات برداشت نہ ہوئی اور اس نے جا کر ہاتھی پر حملہ کر دیا اس طرح پورے جنگل میں بھاگم دوڑ مچ گئی اور سبھی جانور ادھر ادھر بھاگنے لگے اور شیر بھی غصے میں ا کر سبھی جانوروں کو کھانے لگا اس سے پورے جنگل میں خون ہی خون پھیل گیا۔۔اخلاقی سبق : اپ کا دشمن کبھی اپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔۔