قسمت کا کھیل: یمنی ڈرائیور کی حیرت انگیز داستان

قسمت کا کھیل: یمنی ڈرائیور کی حیرت انگیز داستان

امریکی نے بچے کو اپنے پاس رکھ لیا اور ڈرائیور کو ورکشاپ میں کام پر لگا دیا

امریکی میاں بیوی جب یمن میں آثار قدیمہ کی تلاش میں پہنچے تو یمنی حکومت نے ان کے لیے ایک گاڑی اور ڈرائیور کا انتظام کیا جو انہیں آثار قدیمہ اور دیگر جگہوں پر لے جاتا۔ ڈرائیور ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن وہ اس جوڑے کو اپنے گھر لے گیا اور ان کی خوب خدمت کی۔ یہاں یاد رہے کہ امریکی جوڑے کی کوئی اولاد نہ تھی جبکہ یمنی ڈرائیور کے ہاں چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ڈرائیور اپنی تنگدستی سے تنگ آچکا تھا، اس نے امریکی جوڑے سے درخواست کی کہ اگر وہ اسے امریکہ لے جائیں تو وہ وہاں جا کر روزی کما سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ بالکل، لیکن شرط یہ ہے کہ تمہارا بچہ بھی ساتھ جائے گا جبکہ تمہاری بیوی نہیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد یمنی ڈرائیور مان گیا۔

کچھ دن بعد، وہ اپنے بچے کے ساتھ امریکہ پہنچ گیا جہاں ایئرپورٹ پر اسی امریکی جوڑے نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے بچے کو اپنے پاس رکھ لیا اور ڈرائیور کو ورکشاپ میں کام پر لگا دیا۔ کچھ ماہ بعد، پولیس نے یمنی ڈرائیور کو گرفتار کر لیا اور بتایا کہ وہ جعلی ویزہ پر امریکہ آیا ہے۔ اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور کچھ وقت بعد ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ بچہ امریکہ میں ہی رہا اور عیسائی ماحول میں پرورش پانے لگا۔

وقت تیزی سے گزرتا گیا اور بچہ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ ایک دن اس لڑکے نے اپنے والد سے کہا کہ وہ اپنی کلاس فیلو لبنانی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے والد نے کہا کہ ہم عرب میں شادی نہیں کریں گے۔ اس بات پر باپ بیٹے میں جھگڑا ہو گیا، لیکن لڑکا اپنی ضد پر قائم رہا اور لبنانی لڑکی سے شادی کر لی۔ اس پر اس کے والد نے انتقاماً پولیس کو اطلاع دی کہ یہ بھی جعلی ویزہ پر امریکہ آیا ہے۔ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، لیکن اس نے پانچ ہزار ڈالر دے کر ضمانت حاصل کر لی۔

اسی دوران، اسے کال آئی کہ اس کی ماں ہسپتال میں ہے۔ وہ فوراً وہاں پہنچا تو اس کی ماں نے کہا کہ وہ اس کی حقیقی ماں نہیں ہے اور اس کے پاس ایک تصویر دی جس پر اس کا اصلی نام “جابر بن ناصر” لکھا تھا۔ یہ سن کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وکیل نے اسے مشورہ دیا کہ اس کا کیس کمزور ہے، بہتر ہے کہ وہ پہلی فلائیٹ سے امریکہ چھوڑ دے۔ اس نے ضروری سامان لیا اور ایئرپورٹ پہنچا، وہاں قریب کے ملک کی فلائیٹ ملی اور وہ فرینکفرٹ پہنچ گیا۔

فرینکفرٹ میں رات ہو چکی تھی اور وہ بہت بھوکا تھا۔ ایک ہوٹل میں پہنچا تو ہوٹل بند ہو رہا تھا۔ اس نے ہوٹل والے سے کھانے کے متعلق پوچھا تو جواب ملا کہ ہوٹل بند ہو چکا ہے۔ اس نے بھوک کی شدت بتائی تو ہوٹل والے نے اسے کھانا دے دیا۔ ہوٹل والے نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ اس نے ساری کہانی سنائی کہ کس طرح وہ بچپن میں یمن سے امریکہ آیا۔ ہوٹل والے نے اسے رات کو ٹھہرایا اور کہا کہ یمن کے کچھ لوگ یہاں آتے ہیں، ان سے بات کر کے تمہارے گھر والوں کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔

اگلے روز ہوٹل والے نے اپنے فیس بک پر اس کی پرانی تصویر لگا دی جو اس کی والدہ تک پہنچ گئی۔ والدہ نے فوراً فون کر کے پوچھا کہ یہ تصویر کہاں سے آئی ہے۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ وہ لڑکا میرے پاس ہے۔ والدہ نے کہا کہ اسے جانے نہ دینا، یہ تمہارا بھائی ہے۔ پھر والدہ نے بتایا کہ جب اس کا والد ناصر امریکی جیل سے واپس آیا تو بیمار ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا۔ پھر میں نے ایک فلسطینی سے شادی کر لی جو تمہارا باپ ہے، اس طرح تم دونوں بھائی ہو۔

اللہ اکبر! جس لڑکے نے عیسائی ماحول میں پرورش پائی، اللہ نے اسے دوبارہ اسلام کی طرف لوٹایا۔