عطرت بتول ارشد اور امجد دو بھائی تھے دونوں اپنے ماں باپ کے ساتھ گاؤں میں
رہتے تھے۔اگر چہ وہ غریب تھے لیکن وقت اچھا گزر رہا تھا غربت کے باوجود ماں
اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو صاف
ستھرے اچھے کپڑے پہنائے اور اچھا کھانا کھلائے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ
ماں کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئی ان دونوں بھائیوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا
ان کے ابو اور چچا،وغیرہ ان کا خیال کرنے لگے لیکن ماں کی کمی انھیں بہت محسوس
ہوتی تھی اور اب گاؤں میں ان کا دل نہیں لگتا تھا گاؤں میں روزگار بھی نہ ہونے
کے برابر تھا۔ تنگ دستی اورغربت بڑھ رہی تھی حالات ایسے تھے کہ یہ دونوں بھائی
اسکول بھی نہیں جا سکتے تھے ان کے ابو نے حالات میں بہتری لانے کے لئے گاؤں
چھوڑ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ (جاری ہے) شہر میں آکر ان کے ابو نے محنت
مزدوری شروع کردی اور حالات بہتر کرنے کے لئے ان دونوں بھائیوں کو بھی چھوٹے
چھوٹے کاموں پر لگا دو۔ ارشد کو ایک سٹور پر ملازمت ملی اب وہ سارا دن سٹور پر
رہتا گاہک آتے رہتے وہ انہیں ان کی مطلوبہ چیزیں نکال کر دیتا
کاپیاں،پنسلیں،کلرز،اس سٹور پر زیادہ پڑھنے لکھنے کی چیزیں تھیں۔ ایک دن اس
سٹور پر ایک آنٹی آئیں وہ بچوں کی کہانیاں لکھتی تھیں ارشد کو معلوم ہوا تو اس
نے کہا میری کہانی بھی لکھ دیں،تمہیں کیسی کہانیاں پسند؟آنٹی نے پوچھا ماں کی
کہانی لکھ دیں،ارشد نے کہا،میری امی فوت ہو چکی ہیں۔ ارشد بولا ٹھیک ہے،آنٹی
نے کہا،لیکن ایک بات مانو گے؟جی ،ارشد نے کہا،تم نے کہا کہ ماں کی کہانی لکھ
دیں اس کا مطلب ہے کہ تمہیں اپنی ماں سے بہت محبت ہے اور ہر ماں کی خواہش ہوتی
ہے کہ اس کا بیٹا پڑھے،اگر تم اسکول نہیں جا سکے تو فارغ وقت میں پڑھ سکتے ہو
،تھوڑی سی کوشش سے اور کسی کی مدد سے تمہیں لکھنا پڑھنا آجائے گا اس طرح نہیں
کہانیاں پڑھنی آجائیں گی اچھائی اور برائی کا پتہ چلے گا۔ کیونکہ تعلیم ہی
اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتی ہے ۔ایک پڑھے لکھے انسان اور ان پڑھ میں بہت
فرق ہوتا ہے بہت سے ایسے بچوں کی مثالیں موجود ہیں جو چھوٹی عمر اسکول نہیں جا
سکتے لیکن جب انھیں تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے پڑھنا شروع کر
دیا ،تعلیم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ارشد جس سٹور میں کام کرتا تھا
اس کے مالکان بہت اچھے لوگ تھے انہوں نے ارشد کا شوق دیکھ کر اسے کام کے بعد
فارغ وقت میں پڑھنے کا موقع دیا،ارشد نے سوچا وہ پڑھے لکھے گا اچھی باتیں
سیکھے گا تو یقینا اس کی ماں کی روح خوش ہو گی۔ اس طرح اُس نے پڑھنا لکھنا
شروع کیا اور آہستہ آہستہ اُس نے تعلیم مکمل کرلی۔اب وہ ایم کام کر چکا ہے
،ایک فیکٹری میں مینیجر کی جاب کر رہا ہے آج بھی وہ اُس خاتون کو یاد کرتا ہے
جس نے اُس کو نصیحت کی اور بات اُس کے دل میں اُتر گئی اس طرح اُس نے تعلیم کا
سلسلہ شروع کیا اور آج ایک باوقار زندگی گزار رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *