ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا تصور خودی
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا تصور
خودی
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ہمارے عظیم قومی و ملی شاعر ہیں۔جنھوں نے اپنی آفاقی شاعری کے ذریعے برصغیر کےخوابیدہ مسلمانوں میں آزادی کی لہر دوڑا دی۔ برصغیر کےمسلمان اتنے مایوس ہو چکے تھے کہ انھوں نے غلامی کو ہیاپنی قسمت تصور کر لیا تھا۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے جب مسلمانوں کی یہ حالت دیکھیتو انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانان ہند کو ان کیخودی کا احساس دلایا کہ تم مسلمان ہی عالم اسلام کیحکمرانی کے لیے پیدا کیے گۓ ہو۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے نوجوانوں کو احساس دلانے کیکوشش کی کہ خودی اور منزل لازم و ملزوم ہیں۔ ایک جگہفرماتے ہیں۔خودی جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میںتو منزل انھیں نظر آتی ہے آسمانوں میںڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے مسلماں جوانوں میں اپنی شاعریکے ذریعے خودی کو اجاگر کیا کہ جن قوموں میں خودی کااحساس ہووہ قومیں محکوم و غلام نہیں رہ سکتیں کیوںکہخودی کی بیداری سے ہی اللہ کی مدد و نصرت حاصل ہوتیہے۔خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےاقبال نے خودی کے تصور کے ذریعے قوم کو خود شناسی کاپیغام دیا۔ جوانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ پہچانو تم ہی وہعظیم قوم ہو جنھوں نے بڑے وسیع علاقے پر حکمرانی کی۔دنیا میں عروج و ترقی کاراز خودی میں پنہاں ہے خودی کااحساس ہی وہ دولت عُظمیٰ ہے جس کے ذریعے قومیں اپنیپہچان کراتی ہیں اور دنیا کے نقشے میں اپنی انفرادیت قائمرکھتی ہیں۔ خودی میں ہی توحید کا راز چُھپا ہے۔ جیسا کہعلامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔خودی کا سر نہاں لاالہٰ الا ا للہخودی ہے تیغ فساں لاالہٰ الا ا للہنام طالب علم۔ محمد عزیر کلاس۔ ہشتمگورنمنٹ ہائی سکول وڑہ گشکوری لیہ