انوار آس محمد میری گاڑی بہت پرانی ہو چکی ہے۔اس وجہ سے آئے دن خراب ہوتی رہتی
ہے۔اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔گاڑی خراب تھی،اس لئے مجھے جیسے ہی تنخواہ ملی،میں
گاڑی کو اپنے مکینک کے پاس لے گیا۔مہنگائی اتنی ہے کہ بہت دیکھ بھال کر خرچ
کرنا پڑتا ہے۔ مکینک تو بہت مصروف تھا،اس لئے اس نے گاڑی اپنے ایک شاگرد کے
حوالے کر دی اور میرے پاس آکر آہستہ سے کہا:”نجم صاحب!لڑکا نیا ہے،لیکن اپنے
کام میں ماہر ہے۔بہت غریب ہے اس لئے میں نے کام پر رکھ لیا ہے۔“ مجھے تو کام
سے دلچسپی تھی،چاہے کوئی بھی کرے۔ لڑکا گاڑی کی مرمت کرنے میں مصروف ہو گیا
اور میں کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔وہ واقعی بہت مہارت سے کام کر رہا تھا۔تھوڑی
دیر بعد بات چیت شروع ہو گئی۔وہ بہت غریب تھا۔ (جاری ہے) ماں گھروں میں کام
کرتی تھی۔باپ بے چارا فالج کا شکار تھا اور کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ ایک
بہن تھی جس کی شادی کرنا تھی۔اس کی شادی کے لئے پیسے بھی جمع کرنا تھے۔میں اس
کی باتیں سنتا رہا اور اس پر ترس کھاتا رہا۔اچانک آواز آئی:”اللہ کے نام پر
کچھ دے دے بیٹا!“دیکھا تو ایک فقیرنی تھی جس کا ایک ہاتھ بھی کٹا ہوا تھا۔ میں
نے اپنا پرس نکالا۔دس روپے کا نوٹ تلاش کیا،لیکن نہیں ملا،نہ میرے پاس سکے
تھے۔ ”معاف کرو اماں!“ میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ میں تو خود مہنگائی کا
مارا ہوں،میں زیادہ پیسے بھیک میں نہیں دے سکتا۔فقیرنی اُداس ہو کر آگے بڑھ
گئی۔ مکینک لڑکے نے جب اسے جاتے دیکھا تو آواز دے کر روکا:”اماں رکو۔“فقیرنی
ٹھہر گئی اور لڑکے نے جلدی سے اپنی جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر فقیرنی کے
حوالے کر دیا۔فقیرنی خوش ہو گئی اور اس کو دعا دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ میں
اس غریب مکینک لڑکے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔پچاس روپے کانوٹ اُف،پچاس کا نوٹ تو
میرے پرس میں بھی تھا،لیکن میں نے فقیرنی کو نہیں دیا۔ وہ غریب مکینک لڑکا بہت
سخی نکلا۔غریب ہونے کے باوجود اس نے بوڑھی فقیرنی کی مدد کی۔ ”صاحب!بے چاری
بوڑھی ہے ایک ہاتھ بھی نہیں ہے اس عمر میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتی۔“لڑکے نے
مجھے دیکھ کر کہا۔ میں لڑکے کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا۔مجھ جیسے لوگ اپنے
اوپر ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں،لیکن اگر کوئی مانگ لے تو پانچ دس روپے سے
زیادہ پیسے نہیں دیتے۔مجھے لڑکے کی سخاوت پر فخر ہونے لگا اور اپنے آپ سے
شرمندہ ہونے لگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *