سچی لگن
ساریہ نے عہد کیا کہ وہ نہ خود علم سے پیچھے ہٹے گی بلکہ دوسروں کو بھی جزبہ دلائے گی
”بے وقوف!تم تو بہت ہی بے وقوف ہو۔ہر وقت پڑھنے کے علاوہ تمہیں کچھ آتا ہی نہیں۔تم تو کتابی کیڑے کی طرح کتابوں میں دماغ خراب کرتی رہتی ہو۔ہاہاہا“اریبہ نے ساریہ کو اپنی بدتمیزی کا نشانہ بنایا۔
ساریہ کلاس کی سنجیدہ ترین اور اول نمبر پر آنے والی طالبہ تھی۔جو فالتو وقت برباد کرنے کے بجائے ،اسے پڑھنے میں صرف کرتی۔کیمسٹری کا پیریڈ تھا۔سر اشتیاق زور و شور سے ”ایٹم“ پر لیکچر دے رہے تھے۔ اس دوران بھی طلبہ باتوں میں مصروف تھے۔
ماریہ اور آمنہ ایک دوسرے کی کتابوں پر سائنس دانوں کی ڈاڑھی مونچھیں بنانے میں مصروف تھیں۔حلیمہ اور سلیمہ لیکچر سننے کے بجائے ”قائداعظم کے چودہ نکات“بڑ بڑا رہی تھیں۔علینہ کا دھیان کھانے کی طرف تھا۔
(
باقی سب سرگوشیوں میں دنیا جہان کی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔
اسی بدتمیزی کے دوران پیریڈ کی گھنٹی بجی ۔پھر دوسرے پیریڈ میں بھی اسی قسم کی صورت حال رہی۔چھٹی کے بعد ساریہ گھر پہنچ کر نڈھال سی صوفے پر گر گئی۔امی بولیں:”ساریہ بیٹا!کیا ہوا،کھانا تو کھا لو۔“
ساریہ غصے سے بولی:”امی!میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گی۔
سوائے کھیل تماشے کے وہاں اور کچھ نہیں ہوتا۔اتنا شور ہوتا ہے کہ مس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اسکول نہیں جاؤں گی۔“ساریہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دھڑام سے دروازہ بند کر لیا۔
شام کو امی ساریہ کے پاس گئیں جو ٹیوشن جانے کے بجائے صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھی۔امی نے سمجھاتے ہوئے کہا:”دوسروں کی حرکتوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے تم خود اپنا نقصان کر لو گی۔اگر اور لوگ جہالت کے اندھیرے میں ڈوب رہے ہیں تو کیا تم علم کی روشنی کی طرف نہیں بلاؤ گی ساریہ!“
بات ساریہ کی سمجھ میں آگئی۔
ساریہ نے عہد کیا کہ وہ نہ خود علم سے پیچھے ہٹے گی بلکہ دوسروں کو بھی جزبہ دلائے گی۔اس نے اگلے دن سے ہی ”علم پھیلاؤ مہم“کا آغاز کر دیا اور کچھ دن بعد ہی اس کا بہت اچھا نتیجہ سب کے سامنے آیا۔ساریہ کی جماعت کی طالب علموں کا سالانہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا