*
بابا جی کونے میں خاموش بیٹھے، آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیالب
لئے ہوئے تھے ۔ ان سے میری دوستی کو کئی سال ہو گئے ہیں ۔ میں نے
– کبھی اس طرح پریشانی میں انہیں نہیں دیکھا
“کیا ہوا بابا جی؟ ”
– میں نے از را ہ ہمدردی پوچھا
” نقصان ہو گیا بیٹا۔ ”
بابا جی کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹنے والی تھی ۔ ایک کڑاہی، ایک
چولہا، تھوڑا سا تیل اور تھوڑا سا پکوڑوں کا سامان ۔۔۔ کیا نقصان ہوا ہو
گا ۔ مگر میں نے ضبط کرنا ہی مناسب جانا ۔

پوری زندگی کی محنت بے سود ہو گئی بیٹا ۔
نہ جیب بھری نہ جھولی ۔
کام دھندھے کا گر ہی سمجھ نہیں آیا۔
محنت محنت محنت، سب بے سود ۔
کاروبار سمجھ بھی آیا تو اس عمر میں، جب زندگی کی ناؤ نے ہچکولے
“کھانے شروع کر دیئے ہیں۔
بابا جی کی باتیں اکثر میرے سر سے گزر جاتی ہیں ۔ آج بھی ایسا ہی تھا۔
اتنا اچھا کاروبار تھا، ایک لگاؤ ستر کماؤ ۔ یہاں بھی وہاں بھی ۔ نقصان”
کا فکر نہ غم ۔ کسی نے بتایا ہی نہیں ۔ پکوڑے بنانے میں ہی عمر گزار
“دی میں نے۔
” آج کون مسیحا آ گیا آپ کے پاس؟”
میں نے از راہ مذاق پوچھا ۔
” وہ سامنے دیکھ رہے ہو۔”
بابا جی نے سامنے بیٹھے خستہ حال فقیر کی طرف اشارہ کیا۔ “ابھی
تھوڑی دیر پہلے وہ میرے پاس آیا۔ بھوکا تھا، میں نے اپنی روٹی دے دی
۔
کہنے لگا؛ بھئ بانٹ کے کھانے میں برکت بھی ہے مزہ بھی۔ تھوڑی خود
کھائی، تھوڑی مجھے دی، تھوڑی پرندوں کو ڈال دی ۔
جاتے ہوئے کہنے لگا؛ کاروبار کرو تو هللا سے، اس کے نام پہ دو اور
بے فکر ہو جاؤ ۔ ستر گنا کا وعدہ ہے ۔ بے شمار دینا اس کی شان ہے ۔
دنیا چاہو دنیا لے لو، آخرت چاہو آخرت کا سودا کر لو ۔۔۔
تب سے میری سمجھ میں نہیں آ رہا، گیا وقت کیسے واپس الؤں ۔ میں نے
تو منافع واال سودا ہی نہیں کیا۔
میں تو یہی سمجھتا رہا، یہی میرا نصیب ہے۔ اور اسی پہ زندگی بھر”
!!!قناعت کئے رہا ۔۔
ارے بیٹا !آج پتہ چال نصیب کیسے بدال جاتا ہے۔ خود بھی هللا کے ہو جاؤ
اور جو کچھ پاس ہے وہ بھی هللا کی رضا پہ دے ڈالو ۔ بس نصیب آپ
کے ہاتھ میں۔ مانگتے جاؤ وہ دیتا جائے گا۔
“پریشان ہوں، اتنی دیر کیوں ہو گئی؟؟؟ ”
.. یہ کہتے ہی بابا جی نے زار و قطار رونا شروع کر دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *