ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوے کو بہت پیاس لگی تھی گرمیوں کے دن تھے پانی کا کہیں بھی نام و نشان نہیں تھا جب قومی پیار نے ستایا تو وہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر اڑا آخر کار وہ ایک باغ میں پہنچا اور وہاں پر ایک گھڑا دکھائی دیا اس میں پانی تو تھا لیکن اتنا کام کے کوے کی چونچ اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی کوا پانی دیکھ کر تو بہت خوش ہوا لیکن جب چوٹ نہ پہنچ سکی تو اداس ہو گیا سوچتے سوچتے اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے قریب پڑی کنکریاں اٹھائیں اور ایک ایک کر کے گلے میں ڈال دیں اس طرح پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ پیاس بجھا کر اڑ گیا. نتیجہ ضرور ت ایجاد کی ماں ہے.